تحریر :حسنین شیخ، لاہوربلھے شاہ آج کے عہد کی ضرورت؟

  اور اچھا اگر آج کے دور کی بات کر ئے تو آج بھی کوئی زیادہ فرق نہیں آج کا سامراج بھی کبھی کہاں اور کبھی کہاں حملے تو کررہے ہے مگر بس نوعیت تبدیل ہو گئی ہے پہلے تلواروں لڑتے تھے اب ٹینک اگئے ہیں اور دوسری طرف اورنگزیب عالمگیر کے زمانہ کی مذہبی جنونیت کا جبر تھا وہ آج بھی ضیاءالحق کی شکل میں موجود ہے مگر بات یہ ہے اس نظام کو بلھے شاہ ہی نے ہدف تنقید بنایا اور نظام کے گھسے پٹے کتابی موضوع سے نکل کر سماج کے حقیقتوں کو موضوع بنایا ہے بلھے ان عناصر کے خلاف اک انقلابی آواز بن کے سامنے آئے
بلھے شاہ نے وقت کے مولا اور حکم وقت کو اپنی شاعری کے ذریعے چیلنج کیا 

مو نہہ آئی بات نہ رہندی ہے
جوٹھ اکھاں تے کجھ نہیں بچدا
سچ اکھاں بھانٹر مچدا ہے
(ہمیشہ سچی بات کو بے باکی سے کہا ہے جھوٹ بول کے انسان رسوائیوں کے سوا کچھ نہیں حاصل کرتا اور اگر سچ بولے تو اس سے معاشرے میں فسادات اور شور شرابہ جنم لیتا بنیادی طور پر بلھے شاہ سماج کی حقیقت کو واضح کیا ہے)

اور لوگو کو امن پیار اور محبت کا درس دیا اپنے تمام انسان کو برابری کا درس دیا اور ذات پات دے نظام کو دفن کرنے کی بات
کی.  آپ نے اپنے سیّد ہونے کو بھی ٹھکرا دیا اور سب کی مخالفت مول لے کر شاہ عنایت کو مرشد مان لیایہ بات اُن کی برادری اور مذہبی ٹھیکیداروں کے لیے قابلِ قبول نہیں تھی
اس موقع پر آپ کی دعا
جیہڑا سانوں سیّد آکھے ، دوزخ ملن سزائیاں       
جہیڑا سانوں رائیں آکھے ، بہشتیں پینگاں پائیاں                                              (یہاں بلھے شاہ اپنی ذات کی نفی کرتے ہیں اور خود کو نچلی ذات کے مرشد شاہ عنایت آرائیں کا مرید ہونے کو فخر محسوس کرتے ہیں اس ذات پات کا نظام کو دفن کرکے برابری کادرس دیا ہے)

بُلھے شاہ سے قبل بھی شعراء نے مذہبی پیشواؤں کی چیرہ دستیوں کو ہدف تنقید بنایا ہے ۔۔ لیکن جس بہادری ، جرات اور دلیری سے بُلھے شاہ نے ان مذہبی ٹھیکیداروں کو رد کیا ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہے ۔۔ کہتے ہیں : 
  
   ملّا تے مشالچی دوہاں اکو چت ،  
   لوکاں کردے چاننا تے آپ ہنیرے

(بلھے شاہ نے فرمایا مولوی اور مشعل بردار ایک ہی جیسے ہوتے ہیں۔ دوسروں کو روشنی دکھا رہے ہوتے ہیں، خود اندھیرے میں رہتے ہیں)

اسی طرح اُن مُلّاؤں کی عالمانہ اصطلاحات اور فرسودہ کتابوں کی بے معنی تکرار سے تنگ آ کر یوں اُن کا پردہ فاش کرتے ہیں : 

عِلموں بس کریں او یار          
           پڑھ پڑھ مسئلے روز سناویں
                                                                                                         کھانا شک شبہے دا کھاویں  
   دسّیں ہور تے ہور کماویں
                                                                                                                اندر کھوٹ باہر سچیار      
         علموں بس کریں او یار
                                                                                                                    پڑھ پڑھ نفل نماز گزاریں 
   اُچیاں بانگاں چانگھاں ماریں  
                                                                                                        منبر چڑھ کے واعظ پکاریں   
    تینوں کیتا حرص خوار 
                                                    (علموں بس کریں او یار بلھے شاہ کی مشہور زمانہ کافی میں پھر و وقت کے مذہبی رہنماؤں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور فرمایا تیرا اندر منافقت سے بھرا ہوا ہے مگر تم منبر پر بیٹھ کر لوگوں کو درس دیتا ہوں پہلے اپنا اندر صاف کرو پھر اس دینی درس کا پرچار کرنا)


اگر پنجابی صوفی شعراء کی بات کرئے اور بلھے شاہ کی بات نہ کرے تو ناانصافی  نہ صرف اپنے ساتھ بلکہ اہل علم والو کے ساتھ بھی ہو گئی آپ کی تاریخ پیدائش سے متعلق مختلف آرئے موجود ہے(ذاتی تفصیل سے زیادہ ان کی سوچ پر بات کرنا بہتر ہے) آپ کے زندگی کوئی شانہ انداز میں نہیں بسر کی بلکہ فقیرانہ انداز میں بسر کی آپ نے اپنی زندگی کے درمیان جو مشاہدات کیا انہوں بے باک انداذ میں اپنی شاعری کے ذریعے لوگو تک پہنچایا اگر  بلھے شاہ کے دور کی بات کر تو سترویں اٹھارویں صدی کا زمانہ تھا حالت کچھ یوں تھے کہ
نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی کی یلغار جاری تھی
جس پر آپ نے فرمایا
کھاداپیتا لاہے دا، باقی احمد شاہے دا

                                                                               علموں بس کریں او یار

بلھے شاہ ہی نے رام رحیم  کے قدیمی مسئلہ  کی جانب توجہ مبذول فرمائی اس مسئلے کو بے معنی قرار فرمایا

گل سمجھ لئی تے رولا کی…
اے رام رحیم تے مولا کی…
اس دوہڑے میں بلھے شاہ نے کہا رام رحیم اور مولا ایک ہی ذات ہے اس میں کوئی تفریق نہیں ہے بس رحیم کا پیغام ایک ہی ہے اس کو اگر سمجھ لو تو کوئی بات نہیں رہے گئیچ
بلھے شاہ کی آج اشد ضرورت ہے مذہبی جنونیت اور ضیائی سوچ کے خاتمہ کے لئے ہمیں اپنے بزرگوں کی تعلیمات پر ایک بار پھر غور کرنے کی ضرورت ہے، بلھے شاہ اک افاکئ شاعر ہے وہ آج کا بھی اور آنے والی نسلوں کا بھی شاعر ہے بلکہ ہر دور کا  شاعرہے موجودہ سماج کے اندر رہے کر نظام کی تبدیلی کی بات صرف اپنےشعراء اور دانشور کی تعلیمات اور پیغام کے ذریعے ہی ممکن ہے ہاں مشکلات تو ضرور پیش آئے گئی یہ مشکلات تو بلھے شاہ کو بھی پیش آئی تھی بلھے شاہ پر کفر کا فتوی لگا کر ان کے جنازے کو مولا نے پڑھنے سے انکار کر دیا مگر بلھے شاہ کو آج بھی اچھے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے اور  آج بھی اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہے تو مگر مولا کا تو پتہ بھی نہیں
بّلھے شاہ اساں مرنا ناہیں گور پیا کوئی ہور